انسان فطری طور پہ میل ملاپ اور مل جل کر رہنے کو پسند کرتا ہے۔ اس کا اظہار روئے زمین کے سب سے پہلے انسان حضرت آدمؑ نے اس خواہش سے کیا تھا کہ انہیں اپنا کوئی ساتھی چاہیے جس سے وہ بات چیت کرسکیں۔ اس لیے بھی کہ وہ تنہائی سے اکتا گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تنہائی وہ عفریت ہے جو انسان کو مکمل طور پرمایوسی اور تباہی کے دھانے پر پہنچا دیتا ہے۔ اس کا منہ بولتا ثبوت آج مغربی اور یورپی ممالک میں قائم اولڈ ہائوسز ہیں جہاں موجود افراد تنہازندگی گزارنے پر مجبور ہیں جن سے گفتگو کے بعداندازہ ہوتا ہےکہ ان میں زندہ رہنے کی امنگ تقریباً ناپید ہوچکی ہے کیونکہ وہ اپنی اولاد، بہن، بھائی اور رشتہ داروں کے ہوتے ہوئے بھی ان سے دور اور تنہا زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
اس تمام تر صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے ’’مشترکہ خاندانی نظام‘‘ ایک بیش قیمت تحفہ ہےجس پہ نہ صرف انسانیت کی بقا مضمر ہے بلکہ معاشرے کا استحکام بھی۔ کیونکہ اس نظام میں گھر کے تمام افراد مل جل کر رہتے ہیں اور گھر کے بزرگ کو سربراہ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے جس سے نہ صرف بہت سے گھریلو امور باآسانی طے ہو جاتے ہیں بلکہ باہم لڑائی جھگڑے کا امکان بھی بہت کم ہوتا ہے اور ہر طرح کے موقع (مثلاً شادی بیاہ، کسی کی وفات یا کسی اور طرح کا اہم موقع) پہ ہر فرد دوسرے کو مضبوط سہارا فراہم کرتا ہے جو نہ صرف اس کے لیے جذباتی تسکین کا باعث ہوتا ہے بلکہ اس کو کسی بھی سانحے سے نکلنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح انسان پہ ایک کیفیت زیادہ عرصے تک کے لیے طاری نہیں رہتی اور وہ مایوسی کے گڑھے میں گرنے سے بچ جاتا ہے۔اس میں زندگی گزارنے کے لیے نئی امنگ، جذبہ اور حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس طرح باہم الفت و محبت اور اتحاد و اتفاق پروان چڑھتا ہے۔
آج کے دور میں جہاں جدید ٹیکنالوجی اور ایجادات نے انسانی زندگی کو سہل پسند اور پرکشش بنادیا ہے وہیں دوسری طرف مہنگائی کا گراف دن بدن اونچے سے اونچا ہوتا چلا جارہا ہے جس سے ہر فرد پریشان ہے کہ معمول کی تنخواہوں میں گھر کا بجٹ کس طرح چلایا جائے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں ایک سہولت یہ بھی ہوتی ہے کہ تمام افراد خانہ مل جل کر گھر کا بجٹ بناتے ہیں اور اخراجات کو باہم تقسیم کرلیتے ہیں‘ اس طرح سے کسی بھی ایک فرد پر مکمل بوجھ نہیں پڑتا اور گھر کاخرچہ باآسانی ہو جاتا ہے۔ اگر ایک بھائی کی تنخواہ یاذرائع آمدن کم ہیں اور اس کا خرچ زیادہ ہے تو ایسے میں دوسرا بھائی جس کے مالی حالات بہتر ہیں وہ اس کی مدد کرتا ہے تاکہ اس کو بھی ہر طرح کی سہولیات زندگی حاصل ہوسکیں اور وہ بنیادی ضروریات سےمحروم نہ ہو۔ اسی طرح تفریحی پروگرام طے کئے جاتے ہیں جو نہ صرف انسانی نشوونما کے لئے ناگزیر ہوتے ہیں بلکہ ذہنی و جذباتی آسودگی کاباعث بھی ہوتے ہیں۔ بالخصوص بچوں کے لیے ایسے مواقع بہت دلچسپی کا باعث ہوتےہیں کہ وہ اپنے تمام کزنز کے ساتھ مل کر مختلف طرح کے کھیلوں میں شریک ہوتے ہیں اس سے ان کے اندر جذبہ مسابقت پروان چڑھتا ہے اور ہر بچہ دوسرے سے آگے بڑھنے کی جستجو اور کوشش کرتا ہے۔ یہ جذبہ اس کے لیے زندگی کے دیگر شعبوں میں آگے بڑھنے میں بھی ممد و معاون ثابت ہوتا ہے اور زندگی کے ہر میدان میں اس کو کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کرتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں